اسالیب سرگودھا( نجمہ منصور نمبر )

         اسالیب سرگودھا  (نجمہ منصور نمبر ) ۔ ۔   

مبصر : ڈاکٹر بابر جاوید 

نجمہ منصور

 
 

ادبی منظر نامے کو واضح کرنےاور ادبی تخلیقات کی متنوع جہات سامنے لانےمیں  .  کردار ادا کر رہا ہے۔اس کے مدیر ذلفقار احسن جو کہ خود بھی بہت اچھے شاعر نقاداورمحقق ہیں ہر دم اس پرچے کے معیار کو بہتر بنانے کے لئے کوشاں رہتے ہیں ۔ وہ نہ صرف عصری ادبی منظر نامے پر گہری اور عمیق نظر رکھتے ہیں بلکہ انہوں نے بطور مدیر بھی اپنی صلاحیتوں کو ادبی حلقوں میں منوایا ہے۔ بڑی بات یہ ہے کہ انہوں نے اسالیب کے لیے تحریروں کے انتخاب میں ہمیشہ پوری دیانت داری سے کام لیا ہے اور مسند لکھنے والوں کے علاوہ نے تخلیق کاروں کو بھی پرچے میں مناسب جگہ دی ہے۔ جس سے نہ صرف ادب کا دائرہ وسیع ہوا ہے بلکہ اس کی بوقلمونی اور رنگارنگی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

’’اسالیب‘‘ کا ادبی سفر گزشتہ پندرہ سال پر محیط ہے یہ پرچہ 2006 سے لے کر تا حال با قاعدگی کے ساتھ شائع ہورہا ہے اور اس کے ادبی معیار میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے اس دوران" اسالیب" کے متعددخصوصی نمبر اور شارہ بھی شائع ہو چکے ہیں۔ جن میں ڈاکٹر انورسدید نمبر ڈاکٹر رشید امجد نمبر ، ڈاکٹر وزیر آغا نمبر اور ڈاکٹر سلیم آغا قزلباش نمبر شامل ہیں ۔اب اسالیب کا نجمہ منصور نمبر بھی شائع ہوا ہے۔ نجمہ منصور اردونثری نظم میں منفرد لہجے کی حامل شاعرہ ہیں ۔انہوں نے اردو نظم کو نئے ابعاد سے روشناس کرایا ہے۔



 اس سے نہ صرف نظم کوئی معنویت حاصل ہوئی

ہے بلکہ انہوں نے اسے تخلیقی جواز بھی فراہم کیا ہے جس سے نثری

نظم کے وقار میں اضافہ ہوا ہے ۔ان کی نظم نہ صرف تخلیقی وفور سے

لبریز ہے بلکہ اس میں عصری حسیت اور زمانے کالمس بھی موجود

ہے۔ وہ عصری شعور کے بطن سے نظم کشید کرنے کا ہنر جانتی

ہیں۔ دراصل نظم ان کی زندگی کا حصہ ہے بلکہ ڈاکٹر عظمی سید کےمطابق وہ خود چلتی پھرتی نظم ہیں۔ انہوں نے اپنے تخلیقی سفر کا آغاز پابند شاعری سے کیا تھا لیکن پھر ڈاکٹر وزیر آغا کے مشورے سے نثری نظم لکھنا شروع کی اور جلد ہی "اوراق اور دیگر ادبی پرچوں میں ان کی نظموں کو جگہ مانا شروع ہو گئی۔ اب نثری نظم ان کی شناخت بن چکی ہے ۔ان کی نظموں کے متعدد مجموعے شائع ہوکر قبول عام کی سند حاصل کر چکے ہیں ۔ جن میں " میں سپنے اور آنکھیں محبت کیوں نہیں کر تے "اگر نظموں کے پر ہوتے" تم " گیلی سلی نظمیں " شائع ہو چکے ہیں۔ ان پانچ کتابوں کو "کلیات نجمہ منصور" کی صورت میں یکجا بھی شائع کیا گیا ہے ۔اس طرح نجمہ منصور کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ اردو ادب میں نثری نظم کی پہلی شاعرہ ہیں جن کی نثری نظموں پرمشتمل کلیات شائع ہوئی ہے۔اس کے علاوہ ان کی ان کی نظموں کی دو اور کتب" نظم کی بارگاہ میں " اور "محبت کا روز نامچہ اور دوسری نظمیں مرتبہ: ڈاکٹر روش ندیم حفیظ تبسم بھی شائع ہو چکی ہیں۔ اور پرمشتمل ان کا ایک مجموعہ "سانس کی گرہ کھلتے ہی" بھی زیرطبع ہے اس طرح ان کا تخلیقی سفر ابھی جاری ہے اور ان کی اعظم کے تخلیقی امکانات ابھی روشن ہیں ۔ طویل نظموں پر

’’اسالیب‘‘ نے اپنے جنوری تا اپریل 2021 کے شارے کو نجمہ منصور نمبر کے طور پر شائع کیا ہے جو کہ نجمہ منصور کے کامیاب تخلیقی سفر کا اعتراف بھی ہے اور اس سے ان کی نظم اور
شخصیت کے بہت سے پہلو سامنے آئے ہیں اور ان کی تخلیقی جہات کی نشاندہی بھی ہوئی ہے.



اس شمارے میں مجہ منصور کی نظم پر لکھے جانے والے درجنوں مطبوعہ اور غیر مطبوعہ مضامین و مقالات شامل ہیں ۔ جن میں ڈاکٹر وزیر آغا پروفیسر غلام جیلانی اصغر ڈاکٹر ناصر عباس نیر اور ڈاکٹر عبدالعزیز ملک جیسے ناقدین اورمحققین کی تحریر میں بھی شامل ہیں اور خصوصی مطالعہ میں ڈاکٹر انور سدید پروفیسر سجادنقوی، ڈاکٹر سلیم آغا قزلباش، ڈاکٹر عظمی سلیم پروفیسر ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم ڈاکٹر معین نظامی اور ڈاکٹر روش ندیم جیسے بڑے لکھنے والوں کی ناقدانہ بصیرت کے موتی بکھرے ہوۓ ہیں ۔اور آخر میں جدید نظم کے تخلیقی امکانات کے موضوع پر نجمہ منصور سے ذوالفقار احسن کا بصیرت افروز مکالمہ اور ڈاکٹر عابد خورشید اور ذوالفقار احسن کا ان کے ساتھ نثری نظم کے حوالے سے ایک مذاکرہ بھی شامل ہے۔ ساتھ ہی ان کی مخصوص نظموں
پر مر یدعباس خاور اور ذوالفقار احسن کے تاثراتی مطالعات بھی شامل ہیں ۔میری راۓ میں نجمہ منصور کی نظم کی تفہیم کے لیے اسالیب کا بیشارہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس سے جامعات میں تحقیقی کام کرنے والے سکالرز بھی استفادہ کر سکتے ہیں۔

Comments